ایک لڑکا اور خلیفہ

ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بازار گئے۔ انہوں نے اونٹ کی سواری کو نظر انداز کیا اور سخت دھوپ میں پیدل ہی ریگزاروں کے بیچ سے چلنے لگے۔ واپسی میں ذرا دیر ہو گئی اور گرمی کی شدت بڑھنے لگی۔اب ان کے لیے ایک قدم بھی چلنا مشکل ہو گیا۔ اسی دم آپ نے دیکھا کہ کوئی شخص گدھے پر سوار ہو کر چلا آ رہا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کچھ راحت محسوس کی اور امید بھری نظروں سے اس کا انتظار کرنے لگے۔
جب سوار قریب آیا تو آپ نے دیکھا کہ وہ ایک نو عمر لڑکا ہے۔
”بیٹا! کیا تم مجھے اپنے گدھے پر سوار کر سکتے ہو؟“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا۔
لڑکا گدھے سے نیچے اتر گیا۔ وہ آپ کو وہاں اس حالت میں دیکھ کر حیران تھا۔
”اے مسلمانوں کے رہنما! مہربانی کر کے میرے اس گدھے پر سوار ہو جائیے۔“ لڑکے نے کہا۔ آپ نے فرمایا: ”نہیں! پہلے تم گدھے پربیٹھو! میں تمہارے پیچھے سوار ہو جاؤں گا۔ کیوں کہ سواری (گاڑی) کا مالک آگے بیٹھنے کا زیادہ حقدار ہے۔“
بہر حال وہ لڑکا اپنے گدھے پر سوار ہوا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کے پیچھے بیٹھ گئے۔ گدھے نے میلوں کی مسافت طے کی اور وہ مدینہ پہنچ گئے۔ اچانک ڈھیر سارے لوگ گدھے کے ارد گرد اکٹھا ہو گئے۔ وہ مدینے کی گلی میں اس نظارے کو دیکھ کر متعجب تھے کیوں کہ خلیفہئ وقت حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک حقیر سے گدھے پر ایک عام سے لڑکے کے پیچھے بیٹھے تھے۔
لوگ آپ کی اس درجہ انکساری کو دیکھ کر حیرت کا مجسمہ بن کر رہ گئے۔

Leave a Comment