حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ایک مشہور صحابی تھے۔ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے متبع ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑے عالم دین بھی تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے کسی کے جنازے میں شرکت کی۔ جنازے میں ڈھیر سارے لوگ شریک تھے جن میں ایک اور مشہور اور جلیل القدر صحابی حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک خاندان کے ایک فرد تھے۔ آپ کو ’اہل بیت‘ کہا جاتا ہے۔ سارے لوگ اہل بیت سے محبت اور ان کی بڑی تعظیم کرتے تھے۔
بہر حال نماز جنازہ سے فارغ ہو کر حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اپنے خچر کے پاس آئے اور اس پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگے۔ اتنے میں حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے آپ کے پاس آئے اور انہوں نے خچر پر سوار ہونے میں آپ کی مدد کی۔ آپ نے حضرت عبد اللہ ابن عباس کی اس حرکت پربڑی شرمندگی محسوس کی اور فرمایا: ”آپ تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی ہیں۔ آپ میرے ساتھ اتنی انکساری اور تواضع کا مظاہرہ کیسے کر سکتے ہیں؟“
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ”میں نے سیکھا ہے کہ ہمیں علمائے دین اور بڑی شخصیات کے ساتھ نہایت نرمی اور بڑی عاجزی و انکساری کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔“ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بڑے متاثر ہوئے اور بڑھ کر آپ کا ہاتھ چوم لیا۔
اس واقعے سے پتا چلا کہ ہمیں اہل بیت کے ساتھ بڑی نرمی اور محبت کا معاملہ کرنا چاہیے۔ یقینا ان دو بڑے اور عظیم صحابیوں کی آپسی انکساری اور تواضع کے پیچھے سوائے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے اور کوئی مقصد نہیں تھا۔