بادشاہ کا حج

بچو! آپ خلیفہ ہارون رشید کو تو جانتے ہی ہیں۔ ان کے بارے میں آپ نے پچھلے صفحات میں پڑھا ہے۔ ایک مرتبہ وہ اپنے چند خاص لوگوں کے ساتھ حج کے لیے روانہ ہوا۔ راستے میں اس کی ملاقات ایک بہت بڑے صوفی عالم دین سے ہوئی جن کا نام بہلول دانا تھا۔ حضرت بہلول دانا بادشاہ کے شاہانہ سفر کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ سپاہی راستوں کا مسلسل معائنہ کر رہے تھے تاکہ بادشاہ بآسانی اور آرام کے ساتھ سفر کر سکے۔ لوگ بادشاہ کی سواری کے دونوں طرف ادب سے چل رہے تھے۔ بادشاہ کی شاہانہ سواری عام لوگوں کے لیے دقت پیدا کر رہی تھی۔ حضرت بہلول دانا سے لوگوں کی پریشانی دیکھی نہیں گئی۔ وہ بادشاہ کے قریب آئے اور کہا: ”تمہیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر حج کے بارے میں پتا ہے؟ ان کا سفر پر امن طریقے سے ہوا کرتا تھا۔ انہوں نے کبھی عام راہگیروں کے لیے دشواریاں پیدا نہیں کیں۔
بادشاہ کو یہ سن کر سخت حیرت و ندامت ہوئی اور وہ رونے لگا۔
”بہلول! تم اسی طرح ہمیں بار بار نصیحت کرتے رہا کرو!“ خلیفہ نے آنسو پوچھتے ہوئے کہا۔ حضرت بہلول آگے فرمانے لگے: ”جب خدا کسی انسان کو اچھی صحت اور مال عطا کرتا ہے اور وہ شخص ان کا استعمال خدا کے لیے کرتا ہے ساتھ ہی وہ اپنے مال کی حفاظت کرتا ہے اور اسے صرف جائز طریقوں پر خرچ کرتا ہے، اسی طرح وہ اپنی طاقت کو قانونی طور پر اور انصاف کے ساتھ استعمال کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے پاک روحوں میں شامل کر لیتا ہے۔“
بادشاہ کو یہ نصیحت بہت پسند آئی اوراس نے حضرت بہلول کو کوئی قیمتی تحفہ دینا چاہا مگر انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ مجھے یہ تحفہ نہیں چاہئے۔
”ٹھیک ہے تو اس کے بدلے ہم آپ کے لیے ایک ماہانہ رقم متعین کر دیتے ہیں۔“ بادشاہ نے گزارش کی۔ حضرت بہلول نے فرمایا: ”اے خلیفہ! ہم اللہ پربھروسہ کر کے جیتے ہیں۔ اور جو چاہتے ہیں اسی سے مانگتے ہیں۔ اور مجھے نہیں لگتا کہ وہ صرف تجھے یاد رکھے گا اور مجھے بھول جائے گا۔“
خلیفہ کو حضرت بہلول کے ان جملوں سے سخت شرمندگی ہوئی اور وہ کچھ بھی نہ بول سکا۔

Leave a Comment