مکہ کے کافروں کا مسلمانوں پہ سخت حملوں کا سلسلہ جاری تھا۔ وہ مسلمانوں کو بار بار پریشان کرکے بڑے خوش ہوتے تھے جس کے نتیجے میں صحابہئ کرام نے مکہ چھوڑنا شروع کر دیا اور مدینہ کی طرف چل پڑے۔ آخرکار سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کے ظلم اور خدا کے حکم سے اپنے آبائی وطن کو خیرباد کہہ دیا اور مدینہ جا بسے۔ مدینہ میں اسلام پھیلنا شروع ہوا اور ترقی کرتا گیا کرتا گیا یہاں تک کہ ہزاروں لوگوں نے اسلام کا دامن تھام لیا۔
جب کئی سال گزر گئے اور اسلام کافی مضبوط ہو گیا تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جاں نثار صحابہ کے ساتھ مکہ واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ آخرکار مکمل طور پر جنگی ساز و سامان اور ہتھیاروں سے لیس ہو کر مکہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ اس خبر سے مکہ کے کافر بری طرح گھبرا گئے اور ڈر کے مارے اپنے گھروں میں دبک گئے اور دروازے مضبوطی سے بند کر لیے۔ کچھ لوگوں نے آگے بڑھ کر سرکار صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے سامنے معافی مانگی اور اپنے جرم کا اعتراف کیا اور کچھ لوگوں نے مسجد حرام میں پناہ لی۔ انہیں یقین تھا کہ آج نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے صحابہ ان سے پرانے ظلم و بربریت کا حساب اور انتقام ضرور لیں گے۔
آخر کار سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ پر سوار تشریف لائے۔ آپ کا سر جھکا ہوا تھا۔ یہ در اصل مکہ کی عظیم فتح پر خدا کے حضور عاجزی اور تواضع کا اظہار تھا۔ آپ نے مکہ کے کافروں سے کہا: ”تم سب آزاد ہو! آج کسی سے کوئی بدلہ یا انتقام نہیں لیا جائے گا۔ اس لیے اپنے دلوں سے تمام وسوسے نکالو اور بے خوف ہو جاؤ!“
آپ کے اس جملے سے مکہ کے کافر حیران و شسدر رہ گئے۔ اور سب نے اپنے دل میں کہا کہ آپ کتنے سخی اور فراخ دل انسان ہیں! سب لوگوں نے آپ کی تعریف کی اور کئی سارے اسلام میں داخل ہو گئے۔