حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ایک مشہور صحابی ہیں۔ آپ ایک مرتبہ مدینہ کے گورنر مقرر ہوئے۔ لوگ آپ سے کافی محبت اور آپ کی بڑی تعظیم کرتے تھے۔ آپ ایک اچھے عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ امت کے خیر خواہ اور نہایت متواضع انسان تھے۔ اتنے بڑے اور مشہور شہر مدینہ کے گورنر ہونے کے باوجود ہر کوئی آپ سے بآسانی مل سکتا تھا اور اپنے مسائل بیان کر سکتا تھا۔ آپ کا فیصلہ ہمیشہ صحیح اور حق پر ہوتا تھا۔ لوگ آپ کی ماتحتی میں بڑے خوش تھے۔ ظاہر ہے کون ایسی خوبیوں کے مالک گورنر یاامیر کو پسند نہیں کرے گا؟
ایک دن ایک شامی (ملک شام کا رہنے والاآدمی) اپنی بھوسے کی بوری لیے ہوئے سڑک کے کنارے کھڑا تھا۔ وہ بڑی دیر سے کسی قلی یا بوجھ بردار (بوجھ ڈھونے والا) کا انتظار کر رہا تھا تاکہ وہ اس کی بوری کو اس کے گھر تک چھوڑ آئے مگر کافی عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اسے کوئی نہیں ملا۔ اتنے میں اسے ایک سیدھا سادا آدمی آتا ہوا دکھائی دیا۔ اس نے سوچا یہ عام سا آدمی کوئی بوجھ بردار ہی ہو سکتا ہے۔ جب وہ آدمی قریب آیا تو اس نے کہا: ”بھائی! کیا تم میری اس بوری کو میرے گھر تک پہنچا دوگے؟“
”جی! ضرور“ اس آدمی نے جواب دیا۔
شامی آدمی نے اس کے سر پہ بوری رکھی اور وہ شخص تیز تیز قدموں سے اس کے گھر کی جانب بڑھنے لگا۔ شامی بھی اس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔آدھا راستہ طے کرنے کے بعد اس نے دیکھا کہ ایک گلی میں لوگوں کی بھیڑ جمع ہے اور سب اسے حیرت سے گھور رہے ہیں۔ اس نے سوچا: ’یہ لوگ مجھے کیوں گھور رہے ہیں؟‘ وہ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ کچھ لوگ آگے آئے اور اس سے کڑی آواز میں پوچھا: ”تم جانتے ہو کہ تم نے اپنی بھوسے کی بوری کس کے سر پہ رکھی ہے؟ یہ یہاں کے گورنر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ہیں۔ کیا تجھے یہ بات معلوم نہیں تھی؟“
شامی آدمی کا حیرت سے منہ کھل گیا اور جسم میں کپکپی طاری ہو گئی۔ وہ گڑگڑا کے کہنے لگا: ”مجھے معاف کردیں حضور! میں آپ کو پہچان نہیں سکا۔اور یہ بوری نیچے رکھ دیں“ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے کہا: ”نہیں! میں اس بوری کو تمہارے گھر تک پہنچنے کے بعد ہی اتاروں گا۔“
بالآخر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اس کا سامان اس کے گھر تک پہنچا دیا۔ شامی شخص ابھی تک حیران تھا۔ اس نے پہلے نہ کبھی آپ کو دیکھا تھا نہ آپ کی طرح انکساری!