خط مدائن

اسلام کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت مشہور صحابیوں میں سے ایک ہیں۔ آپ بے مثال عدل و انصاف اور اچھے کارناموں کے لیے جانے جاتے ہیں۔ آپ نے ہر کام میں اللہ کی خوشنودی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کو نگاہ میں رکھا اور ساری زندگی دین کی خدمت میں گزار دی۔
آپ نے اپنی خلافت میں ہر علاقے کے الگ الگ گورنر مقرر کر رکھے تھے۔ ہر گورنر کی ذمے داری تھی کہ وہ اپنے خطے کے لوگوں کی ہر حال میں بہتر سے بہتر دیکھ ریکھ کرے۔ آپ چاہتے تھے کہ تمام گورنر ایک سادہ اور عام زندگی گزاریں اور شاہانہ اور پر تعیش زندگی سے دور رہیں۔ اسی لیے آپ گاہے بگاہے ان کے حالات اور طرز زندگی کا جائزہ لیتے رہتے تھے۔
ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک گورنر کو مدائن کی طرف بھیجنا چاہا اور اس کے لیے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا نام چنا گیا۔ آخرکار آپ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو مدائن کا گورنر مقرر کیا اور انہیں ایک خط دے کر مدائن کی طرف روانہ کیا۔ خط مدائن کے لوگوں کے لیے تھا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ مدائن پہنچے اور آپ کا خط نکال کر لوگوں کے سامنے پڑھنا شروع کیا۔ خط میں لکھا تھا:
”اے ایمان والو! میں نے حذیفہ رضی اللہ عنہ کو تمہارا گورنر بنایا ہے۔ اس لیے تمہیں اس کی اطاعت قبول کرنی ہے اور اس کی ضروریات کا خیال رکھنا ہے۔“ جب آپ خط پڑھ کر سنا چکے تو لوگوں نے آپ سے پوچھا: ”اے ہمارے امیر! آپ بتائیں کہ آپ ہم سے کیا کیا خدمت چاہتے ہیں؟“
”میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم لوگ میرے اور میرے گدھے کے لیے کھانے کا انتظام کر دو!“ گورنر نے کہا۔ لوگ آپ کی سادگی اور انکساری پہ حیران رہ گئے۔
وقت تیزی کے ساتھ گزرتا گیا اور آپ کو مدائن کی ذمے داری سنبھالتے ہوئے مدت ہو گئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سوچا کہ آپ کی خیریت اور مدائن میں رہن سہن کی جانکاری لی جائے۔ انہوں نے آپ کو مدینہ بلا بھیجا۔ جونہی آپ کو خلیفہ کا پیغام ملا آپ نے رخت سفر باندھا اور اپنے گدھے پر سوار ہو کر مدینے کے لیے روانہ ہو گئے۔ چند دنوں کے مسلسل سفر کے بعد آپ مدینہ میں داخل ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ کو دیکھنے کے لیے راستے میں چھپ کر کھڑے ہو گئے۔اور جب انہوں نے آپ کو دیکھا تو حیران رہ گئے۔ کیوں کہ آپ اسی گدھے پرسوار تھے اور وہی سادہ کپڑے پہنے ہوئے تھے جو مدینہ میں پہنا کرتے تھے۔ آپ خوشی سے مچل اٹھے اور دل میں سوچاکہ کتنی سادگی اور عاجزی ہے اس شخص کے اندر! آپ فرط مسرت میں آگے بڑھے اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو گلے سے لگاتے ہوئے فرمایا: ”پیارے حذیفہ! آج سے تو میرا بھائی ہے اور میں تیرا۔“

Leave a Comment